بھارت کی ایک نیشنل ہائی وے ’موت کی ہائی وے‘ کے طور پر مشہور ہے۔ یہ سڑک بھارت کے شمال کو اس کے جنوب سے ملاتی ہے۔ یہاں ہی ایک کنتا نامی گاؤں، جس کا تعلق تیلنگانا کے ڈسٹرکت محبوب نگر سے ہے، ہائی وے کے بائی پاس کے ساتھ پھیلا ہوا ہے۔ اس چھوٹے سے گاؤں کو جو کہ ’ہائی وے کی بیواؤں‘ کے نام سے مشہور ہے، ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہیں۔
35 کے قریب جھونپڑیوں اور خاندانوں پر مشتمل اس گاؤں میں صرف ایک مرد بچا ہے۔ یہاں کے 37 مرد پہلے ہی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ تین اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔ 65 سالہ محمد دستگیر جن کی گاؤں جانے والی سڑک کے کنارے پان چھالیہ کی دکان ہے کہتے ہیں کہ ’یہاں کوئی بھی مرد نہیں بچا۔‘ ’گاؤں کا ہیڈ کوارٹر سڑک کے دوسری جانب ہے۔ اور کسی بھی سرکاری کام سے جانے کے لیے اس سڑک کو عبور کرنا پڑتا ہے۔ اور اکثر اس کو عبور کرنے والے واپس نہیں آتے۔ سب سے حیرت ناک موت کچھ ماہ پہلے ہوئی جب قریبی گاؤں کا ایک مرد، مردوں کی بڑھتی ہوئی اموات کی شکایت لے کر سرکار کے پاس گیا۔ لیکن واپس آتے ہوئے خود موت کے منہ میں چلا گیا۔‘ 44 سالہ کورا سکینی تین سال قبل اس سڑک کی وجہ سے اپنا بیٹا کھو چکی ہے۔ کچھ ہی ماہ بعد ان کے شوہرکا بھی اسی جگہ انتقال ہوا جہاں گاؤں کا راستہ اس مصروف بائی پاس سے ملتا ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے پاس رقم نہں ہے، خاندان نہیں ہے، کوئی کام نہیں ہے، اور جینےکا کوئی مقصد نہیں ہے۔ خداؤں نے ہمیں بد دعا دی ہے۔ ہمارے گاؤں کا کوئی بھی مرد زیادہ دن زندہ نہیں رہتا۔ یہ سڑک ہماری قسمتوں کی گاڑی لے کر چل رہی ہے۔‘ ’ہم برباد ہوگئے ہیں اور اپنی موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ اور ہمیں منحوس گاؤں کی ’ہائی وے بیوائیں‘ کہا جاتا ہے۔ صحافیوں کے آواز اٹھانے کے بعد سیاست دان اور سرکاری اہلکار آتے ہیں
لیکن ان میں سے کسی نے ہمیں ابھی تک ایک روپیہ بھی نہیں دیا۔‘ تقریباً دس سال قبل جب اس ہائی وے پر یہ بائی پاس بنایا گیا تو اس کے ساتھ یہ ایک چھوٹی سڑک کی منظوری بھی دی گئی تھی۔ یہ چھوٹی سڑک پیدل چلنے والوں کے لیے بائی پاس پر چڑھے بغیر سڑک کے دوسری طرف جانے کا ایک محفوظ راستہ ہوتا۔ لیکن یہ سڑک کبھی نہیں بنی جس کے نتیجے میں گاؤں کے لوگوں کو سامنے والے گاؤں میں اپنی ماہانہ پینشن یا کام کے لیے مجبوراً ہائی وے پر چار رویہ بائی پاس کو عبور کرنا پڑتا ہے۔
تھاریہ کورا اس گاؤں میں زندہ رہ جانے والے واحد مرد ہیں لیکن وہ اپنی بیوی کو اس ہائی وے پر کھو چکے ہیں۔ اس کے بعد سے تھاریہ اپنے پانچ بچوں کو اکیلے ہی پال رہے ہیں۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پہلے ہائی وے بنی، جس نے ہمیں خوشحالی نہیں بلکہ موت دی، پھر قریب میں فیکٹری کی تعمیر ہوئی۔ ہم سے پانی، مرکز صحت اور نوکریوں کا وعدہ کیا گیا لیکن ان میں سے کسی پر بھی عمل نہیں ہوا۔‘ ’وہ فیکٹری بنانے کے لیے ہماری زمینوں کو آسانی سے نہیں بیچ سکتے تھے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم سب مر جائیں تاکہ وہ ہماری زمینوں پر قبضہ کر لیں۔‘ اس گاؤں کی حالت سے پتا چلتا ہے کہ یہ ڈسٹرکٹ کے غریب ترین دیہات میں سے ایک ہے۔
سات سالہ انچن گاؤں کے ان پانچ بچوں میں سے ایک ہیں جو قریبی سکول میں جاتے ہیں۔ انچن کی ماں کا کہنا ہے کہ ’جب ان کو واپس آنے میں دیر ہو جاتی ہے تو ہم پریشان ہو جاتے ہیں۔ ہمارے پاس رونے کے لیے بہت کچھ ہے مگر خوش ہونے کے لیے کچھ بھی نہیں۔‘ غربت کی وجہ سے بہت سی خواتین جسم فروشی پر مجبور ہیں اور کبھی کبھار تو صرف ایک وقت کے کھانے کے لیے وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔کورا جذبات سے عاری چہرہ لیے اپنی کہانی سناتی ہیں۔’ہم کیا کر سکتے ہیں؟
گاؤں کے تقریباً ہر مرد کے مرنے کے بعد، ہم بے یارو مدد گار ہوگئے ہیں۔ دوسرے گاؤں کے مرد ہم سے جسم فروشی کا کام لیتے ہیں۔‘ نینا واتھ روکیا اس ہائی وے پر اپنا شوہر، تین بیٹے اور ایک داماد کھو چکی ہیں۔ قریبی گاؤں سے آنے والے مردوں کی نگاہوں اور ارادوں سے پریشان انھوں نے اپنی بہو کو واپس اس کے والدین کے گاؤں بھیج دیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’ہم اپنے تمام بچوں کو سرکاری ہوسٹلوں میں بھیجنا چاہتے ہیں تاکہ وہ زندہ رہ سکیں۔‘